EN हिंदी
خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں | شیح شیری
KHush na aai tumhaari chaal hamein

غزل

خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں

میر تقی میر

;

خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں

حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں

وہ دہاں وہ کمر ہی ہے مقصود
اور کچھ اب نہیں خیال ہمیں

اس مہ چاردہ کی دوری نے
دس ہی دن میں کیا ہلال ہمیں

نظر آتے ہیں ہوتے جی کے وبال
حلقہ حلقہ تمہارے بال ہمیں

تنگی اس جا کی نقل کیا کریے
یاں سے واجب ہے انتقال ہمیں

صرف للہ خم کے خم کرتے
نہ کیا چرخ نے کلال ہمیں

مغ بچے مال مست ہم درویش
کون کرتا ہے مشت مال ہمیں

کب تک اس تنگنا میں کھینچیے رنج
یاں سے یا رب تو ہی نکال ہمیں

ترک سبزان شہر کریے اب
بس بہت کر چکے نہال ہمیں

وجہ کیا ہے کہ میرؔ منہ پہ ترے
نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں