EN हिंदी
یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں | شیح شیری
yun hi hairan-o-KHafa jon ghuncha-e-taswir hon

غزل

یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں

میر تقی میر

;

یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں
عمر گزری پر نہ جانا میں کہ کیوں دلگیر ہوں

اتنی باتیں مت بنا مجھ شیفتے سے ناصحا
پند کے لائق نہیں میں قابل زنجیر ہوں

سرخ رہتی ہیں مری آنکھیں لہو رونے سے شیخ
مے اگر ثابت ہو مجھ پر واجب ال تعزیر ہوں

نے فلک پر راہ مجھ کو نے زمیں پر رو مجھے
ایسے کس محروم کا میں شور بے تاثیر ہوں

جوں کماں گرچہ خمیدہ ہوں پہ چھوٹا اور وہیں
اس کے کوچے کی طرف چلنے کو یارو تیر ہوں

جو مرے حصے میں آوے تیغ جمدھر سیل و کارد
یہ فضولی ہے کہ میں ہی کشتۂ‌ شمشیر ہوں

کھول کر دیوان میرا دیکھ قدرت مدعی
گرچہ ہوں میں نوجواں پر شاعروں کا پیر ہوں

یوں سعادت ایک جمدھر مجھ کو بھی گزاریے
منصفی کیجے تو میں تو محض بے تقصیر ہوں

اس قدر بے ننگ خبطوں کو نصیحت شیخ جی
باز آؤ ورنہ اپنے نام کو میں میرؔ ہوں