EN हिंदी
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں | شیح شیری
talwar gharq-e-KHun hai aankhen gulabiyan hain

غزل

تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں

میر تقی میر

;

تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں

جب لے نقاب منہ پر تب دید کر کہ کیا کیا
در پردہ شوخیاں ہیں پھر بے حجابیاں ہیں

چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر
دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیاں ہیں

جی بکھرے دل ڈھے ہے سر بھی گرا پڑے ہے
خانہ خراب تجھ بن کیا کیا خرابیاں ہیں

مہمان میرؔ مت ہو خوان فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں