تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں
جب لے نقاب منہ پر تب دید کر کہ کیا کیا
در پردہ شوخیاں ہیں پھر بے حجابیاں ہیں
چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر
دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیاں ہیں
جی بکھرے دل ڈھے ہے سر بھی گرا پڑے ہے
خانہ خراب تجھ بن کیا کیا خرابیاں ہیں
مہمان میرؔ مت ہو خوان فلک پہ ہرگز
خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں
غزل
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں
میر تقی میر