EN हिंदी
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم | شیح شیری
kya bulbul asir hai be-baal-o-par ki hum

غزل

کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم

میر تقی میر

;

کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو
شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم

جیتے ہیں تو دکھا دیں گے دعواے عندلیب
گل بن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم

یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم

تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بخود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم

اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم

جب جا پھنسا کہیں تو ہمیں یاں ہوئی خبر
رکھتا ہے کون دل تری اتنی خبر کہ ہم

جیتے ہیں اور روتے ہیں لخت جگر ہے میرؔ
کرتے سنا ہے یوں کوئی قیمہ جگر کہ ہم