ملتا نہیں مزاج خود اپنی ادا میں ہے
تیری گلی سے آ کے صبا بھی ہوا میں ہے
اے عشق تیری دوسری منزل بھی ہے کہیں
مرنا ہے ابتدا میں تو کیا انتہا میں ہے
لاتی ہے جب صبا تو چمکتے ہیں بام و در
یہ روشنی سی کیا تری بوئے قبا میں ہے
ہر رہ گزر نشاں ہے تری سمت کا مگر
اقرار نا رسی بھی ہر اک نقش پا میں ہے
توصیف حسن اصل میں ہے وصف حسن ساز
بندوں سے جس کو پیار ہے یاد خدا میں ہے
یہ تشنگی یہ پاس وفا یہ ہجوم غم
کیا کاروان شوق کسی کربلا میں ہے
سن کر کہ ہوشؔ نے بھی کیا ترک آرزو
کہرام اک مچا ہوا شہر وفا میں ہے
غزل
ملتا نہیں مزاج خود اپنی ادا میں ہے
ہوش ترمذی