ملتا نہیں خود اپنے قدم کا نشاں مجھے
کن مرحلوں میں چھوڑ گیا کارواں مجھے
لمحے کا لمس پھیل چکا کائنات پر
آواز دینے آئی ہیں اب دوریاں مجھے
اک جست میں تمام ہوئیں ساری وسعتیں
لا اب نئی زمین نیا آسماں مجھے
آج ایک دشت وشت میں تنہا شجر بھی میں
حیرت سے تاکتے ہیں سبھی کارواں مجھے
جنگل کی آگ پھیل گئی سارے صحن میں
لے جائے اب جنون نہ جانے کہاں مجھے
سارے طلسم ٹوٹ گئے اشتیاق کے
وہ راہ میں ملے جو کبھی ناگہاں مجھے
تخلیق شعر جہد مسلسل وہ خانہ زاد
ایک ایک لفظ در پہ محاذ گراں مجھے

غزل
ملتا نہیں خود اپنے قدم کا نشاں مجھے
چندر بھان خیال