EN हिंदी
ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں | شیح شیری
milta jo koi TukDa is charKH-e-zabarjad mein

غزل

ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں

ثاقب لکھنوی

;

ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
پیوند لگا دیتا میں نفس مجرد میں

بیداری فرقت میں تھا رمز قیامت کا
جاگا ہوں کہ نیند آئے تاریکئ مرقد میں

اس دفتر ہستی میں تعلیم بہت کم ہے
دو حرف نظر آئے دیباچۂ ابجد میں

گو خاک کا پتلا ہوں لیکن کوئی کیا سمجھے
میں بھی کوئی شے ہوں جو گردوں ہے مری کد میں

ہے ضبط کی فرمائش اس دل سے بہت بے جا
یہ قلزم لا ساحل کس طرح رہے حد میں

پہلو میں نہیں دل تو دل سوز ہی آ جاتا
اک شمع تو جل جاتی تاریکی مرقد میں

نالوں سے یہ کہتا ہوں ہمت سے نہ دل ہاریں
تاروں نے جگہ کر لی اس لوح زمرد میں