ملتا ہے ہر چراغ کو سایا زمین پر
رہتا نہیں ہے کوئی اکیلا زمین پر
ہر ایک نقش اس کا ہوا لے کے اڑ گئی
کھینچا تھا ہم نے شوق کا نقشہ زمین پر
بدلے ہوئے سے لگتے ہیں اب موسموں کے رنگ
پڑتا ہے آسمان کا سایا زمین پر
گوشہ ذرا سا کوئی اماں کا کہیں ملے
جی تنگ ہو گیا ہے کشادہ زمین پر
ہر ایک موج رک سی گئی سانس کی طرح
بہتا نہیں ہے اب کہیں دریا زمین پر
وہ جن کو میرے گھر کا نشاں بھی نہیں ملا
حیراں ہیں مجھ کو دیکھ کے زندہ زمین پر

غزل
ملتا ہے ہر چراغ کو سایا زمین پر
ہمدم کاشمیری