ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
کیا پوچھتے ہو مکاں ہمارے
احساں سے نہیں بدی بھی خالی
دشمن ہیں مہرباں ہمارے
پچھتاؤ گے جان لے کے دیکھو
ناحق ہیں یہ امتحاں ہمارے
بے مثل ہیں لذت سخن میں
سب اٹھ گئے ہم زباں ہمارے
آزاد کی جستجو عبث ہے
پاؤ گے پتے کہاں ہمارے
اڑتی ہے خاک اس زمیں سے
پڑتے ہیں قدم جہاں ہمارے
ناقہ لاتے ہیں اس طرف روز
محسن ہیں سارباں ہمارے
ہم سے بھی کچھ کہو عزیزو
کیا ذکر تھے شب وہاں ہمارے
ظاہر ہے جو گزر رہی ہے
کچھ حال نہیں نہاں ہمارے
بہہ گئے نسیمؔ رنگ کیا کیا
یہ دیدۂ خوں فشاں ہمارے
غزل
ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
نسیم دہلوی