EN हिंदी
ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس | شیح شیری
milna na milna ek bahana hai aur bas

غزل

ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس

سلیم کوثر

;

ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس
تم سچ ہو باقی جو ہے فسانہ ہے اور بس

لوگوں کو راستے کی ضرورت ہے اور مجھے
اک سنگ رہ گزر کو ہٹانا ہے اور بس

مصروفیت زیادہ نہیں ہے مری یہاں
مٹی سے اک چراغ بنانا ہے اور بس

سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں گے ایک دن
جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہے اور بس

تم وہ نہیں ہو جن سے وفا کی امید ہے
تم سے مری مراد زمانہ ہے اور بس

پھولوں کو ڈھونڈتا ہوا پھرتا ہوں باغ میں
باد صبا کو کام دلانا ہے اور بس

آب و ہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں
مجھ کو تو اک درخت لگانا ہے اور بس

نیندوں کا رت جگوں سے الجھنا یوں ہی نہیں
اک خواب رائیگاں کو بچانا ہے اور بس

اک وعدہ جو کیا ہی نہیں ہے ابھی سلیمؔ
مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس