ملی جو دل کو خوشی تو خوشی سے گھبرائے
ہم اجنبی کی طرح زندگی سے گھبرائے
وہ اور کچھ ہے مگر کائنات ہوش نہیں
اک آدمی ہی اگر آدمی سے گھبرائے
کبھی کبھی تو تری دوستی میں ہم اے دوست
خود اپنے عالم آوارگی سے گھبرائے
جلا لئے ہیں اسی وقت آنسوؤں کے چراغ
شب فراق میں جب تیرگی سے گھبرائے
وہی تو بزم سے ساقی کی اٹھ گئے محروم
جو میکدے میں کبھی تشنگی سے گھبرائے
فریب گیسوئے پر خم ہو یا ہو شام حیات
وہ شمس کیا کہ کسی تیرگی سے گھبرائے
غزل
ملی جو دل کو خوشی تو خوشی سے گھبرائے
شمس فرخ آبادی