ملی ہے کیسے گناہوں کی یہ سزا مجھ کو
ڈراتا رہتا ہے اپنا ہی آئینہ مجھ کو
میں کس فسانے کا حصہ ہوں کہہ نہیں سکتا
وجود اپنا بھی لگتا ہے واقعہ مجھ کو
اب آسماں کی چلو حد تلاش کی جائے
بلا رہا ہے ستاروں کا قافلہ مجھ کو
میں کائنات پہ اپنی نگاہ ڈالتا ہوں
ترے خیال کی ملتی ہے جب ضیا مجھ کو
سلام کرتا ہوں رعنائی حیات تجھے
اب اور کوئی تماشا نہیں دکھا مجھ کو
تری خموشی میں مضمر ہے میرا راز سخن
کہ بے زبان نہ کر دے تری صدا مجھ کو
وہی عظیم ہے جو بانٹتا ہو درد وجود
اسی کے وصل کا راشدؔ ہے آسرا مجھ کو
غزل
ملی ہے کیسے گناہوں کی یہ سزا مجھ کو
راشد طراز