EN हिंदी
ملے گا درد تو درماں کی آرزو ہوگی | شیح شیری
milega dard to darman ki aarzu hogi

غزل

ملے گا درد تو درماں کی آرزو ہوگی

غلام ربانی تاباںؔ

;

ملے گا درد تو درماں کی آرزو ہوگی
تمام عمر غرض صرف جستجو ہوگی

پھر آج دل سے مخاطب ہے شب کا سناٹا
پھر آج صبح تلک ان کی گفتگو ہوگی

جنوں کا شغل سلامت رفو کی فکر نہ کر
کسے خبر ہے کہ کب فرصت رفو ہوگی

ابھی جلیں گے یہاں اور بے رخی کے چراغ
اس انجمن میں وفا اور سرخ رو ہوگی

چلے گی بات جہاں تیری کج ادائی کی
مری وفا بھی تو موضوع گفتگو ہوگی

بچیں گے برق حوادث سے آشیاں کب تک
کہ تیز تر ابھی تحریک رنگ و بو ہوگی

ملیں گے راہ میں ایسے ایسے بھی ہم سفر تاباںؔ
قدم قدم جنہیں منزل کی جستجو ہوگی