ملے شوقین باتیں ہو رہی ہیں
بڑی رنگین باتیں ہو رہی ہیں
مرے زخموں کو شاید پڑھ لیا ہے
تبھی نمکین باتیں ہو رہی ہیں
اسے بولو کہ پردے میں رہے وہ
کرو تلقین باتیں ہو رہی ہیں
وہاں دو چار باتیں اور کر لیں
جہاں دو تین باتیں ہو رہی ہیں
میاں زخموں کا عقدہ کھل رہا ہے
کرو تدفین باتیں ہو رہی ہیں

غزل
ملے شوقین باتیں ہو رہی ہیں
ثروت مختار