EN हिंदी
ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی | شیح شیری
mile ghairon se mujhko ranj o gham yun bhi hai aur yun bhi

غزل

ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی

سائل دہلوی

;

ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی
وفا دشمن جفا جو کا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی

کہیں وامق کہیں مجنوں رقم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہمارے نام پر چلتا قلم یوں بھی ہے اور یوں بھی

شب وعدہ وہ آ جائیں نہ آئیں مجھ کو بلوا لیں
عنایت یوں بھی ہے اور یوں بھی کرم یوں بھی ہے اور یوں بھی

عدو لکھے مجھے نامہ تمہاری مہر اس کا خط
جفا یوں بھی ہے اور یوں بھی ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی

نہ خود آئیں نہ بلوائیں شکایت کیوں نہ لکھ بھیجوں
عنایت کی نظر مجھ پر کرم یوں بھی ہے اور یوں بھی

یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تجھے نواب بھی کہتے ہیں شاعر بھی سمجھتے ہیں
زمانے میں ترا سائلؔ بھرم یوں بھی ہے اور یوں بھی