ملے بھی دوست تو اس طرز بے دلی سے ملے
کہ جیسے اجنبی کوئی اک اجنبی سے ملے
قدم قدم پہ خلوص وفا کا ذکر کیا
عدو ملے بھی تو کس حسن سادگی سے ملے
ستم کرو بھی تو انداز منصفی سے کرو
کوئی سلیقہ تو عنوان دوستی سے ملے
تری تلاش میں نکلے تھے تیرے دیوانے
ہر ایک موڑ پہ خود اپنی زندگی سے ملے
وہ لوگ اپنی ہی زنجیر پا کے قیدی ہیں
جنہیں نشان سفر بھی تری گلی سے ملے
چلو کہ ترک تعلق کی بات ختم ہوئی
نہ تم خوشی سے ملے ہو نہ ہم خوشی سے ملے
غزل
ملے بھی دوست تو اس طرز بے دلی سے ملے
غلام جیلانی اصغر