ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے
تمہاری یادوں کے ساتھ تنہا سفر کیا ہے
سنا ہے اس رت کو دیکھ کر تم بھی رو پڑے تھے
سنا ہے بارش نے پتھروں پر اثر کیا ہے
صلیب کا بار بھی اٹھاؤ تمام جیون
یہ لب کشائی کا جرم تم نے اگر کیا ہے
تمہیں خبر تھی حقیقتیں تلخ ہیں جبھی تو!
تمہاری آنکھوں نے خواب کو معتبر کیا ہے
گھٹن بڑھی ہے تو پھر اسی کو صدائیں دی ہیں
کہ جس ہوا نے ہر اک شجر بے ثمر کیا ہے
ہے تیرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تو نے اتنا لمبا سفر کیا ہے
مرے ہی دم سے تو رونقیں تیرے شہر میں تھیں
مرے ہی قدموں نے دشت کو رہگزر کیا ہے
تجھے خبر کیا مرے لبوں کی خموشیوں نے!
ترے فسانے کو کس قدر مختصر کیا ہے
بہت سی آنکھوں میں تیرگی گھر بنا چکی ہے
بہت سی آنکھوں نے انتظار سحر کیا ہے
غزل
ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے
آنس معین