ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا
رواں دواں ہے یونہی کشتی زماں اب بھی
مگر وہ لمحہ جو دل نے گزارنے نہ دیا
لگی تھی جان کی بازی بساط الٹ ڈالی
یہ کھیل بھی ہمیں یاروں نے ہارنے نہ دیا
کوئی صدا مرے صبر و سکوت سے نہ اٹھی
کوئی مزہ ترے قول و قرار نے نہ دیا
وہی علاج شب سختی خزاں تھا ظفرؔ
جو ایک پھول کسی نو بہار نے نہ دیا
غزل
ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا
ظفر اقبال