EN हिंदी
ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا | شیح شیری
mila to manzil-e-jaan mein utarne na diya

غزل

ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا

ظفر اقبال

;

ملا تو منزل جاں میں اتارنے نہ دیا
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا

رواں دواں ہے یونہی کشتی زماں اب بھی
مگر وہ لمحہ جو دل نے گزارنے نہ دیا

لگی تھی جان کی بازی بساط الٹ ڈالی
یہ کھیل بھی ہمیں یاروں نے ہارنے نہ دیا

کوئی صدا مرے صبر و سکوت سے نہ اٹھی
کوئی مزہ ترے قول و قرار نے نہ دیا

وہی علاج شب سختی خزاں تھا ظفرؔ
جو ایک پھول کسی نو بہار نے نہ دیا