ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار
بنا ہے لاشوں کے اعضا سے یہ بدن اس بار
سنا ہے تینوں رتیں ساتھ ساتھ آئیں گی
قمیص ڈال کے نکلوں کھلے بٹن اس بار
ہوا کی موت سے ڈولے نہ قتل آب سے ہم
تمام چیزوں پہ بھاری پڑی تھکن اس بار
بہت سے شہر بہت سی فضا بہت سے لوگ
مگر ہے سب میں کوئی بو کوئی سڑن اس بار
چھپاؤں روح کو کیوں تن سے تن کو کپڑوں سے
اتار کیوں نہ چلوں سارے پیرہن اس بار
خلا کی آگ تو تفضیلؔ نے بجھائی مگر
زمیں پہ وہ نہیں گرتا ہے کاربن اس بار

غزل
ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار
تفضیل احمد