EN हिंदी
ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار | شیح شیری
mila kisi se na achchha laga suKHan is bar

غزل

ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار

تفضیل احمد

;

ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار
بنا ہے لاشوں کے اعضا سے یہ بدن اس بار

سنا ہے تینوں رتیں ساتھ ساتھ آئیں گی
قمیص ڈال کے نکلوں کھلے بٹن اس بار

ہوا کی موت سے ڈولے نہ قتل آب سے ہم
تمام چیزوں پہ بھاری پڑی تھکن اس بار

بہت سے شہر بہت سی فضا بہت سے لوگ
مگر ہے سب میں کوئی بو کوئی سڑن اس بار

چھپاؤں روح کو کیوں تن سے تن کو کپڑوں سے
اتار کیوں نہ چلوں سارے پیرہن اس بار

خلا کی آگ تو تفضیلؔ نے بجھائی مگر
زمیں پہ وہ نہیں گرتا ہے کاربن اس بار