ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
سنی صدیوں پرانی داستاں اک
ہماری سوچ تو ملتی ہے کتنی
مگر کیوں کر نہیں اپنی زباں اک
مرا ہر اک یقیں جھٹلا رہا ہے
وہ جو مجھ میں مکیں ہے بد گماں اک
ہوئے ہیں بے معانی بال و پر اب
ملا نیچے زمیں کے آسماں اک
برے لوگوں سے ملواتا ہے مجھ کو
جتاتا ہے وہی اچھا یہاں اک
میری چپ سے بھی وہ جھنجھلا رہا ہے
خموشی کی بھی ہوتی ہے زباں اک
خدا کو بھی رکھیں گے دسترس میں
زمیں پر وہ بنا کے آسماں اک
نہ تیرے ہو سکے ہم نا ہی اپنے
رہی آدھی ادھوری داستاں اک
غزل
ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
نشانت شری واستو نایاب