EN हिंदी
ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک | شیح شیری
mila hai apne hone ka nishan ek

غزل

ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک

نشانت شری واستو نایاب

;

ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
سنی صدیوں پرانی داستاں اک

ہماری سوچ تو ملتی ہے کتنی
مگر کیوں کر نہیں اپنی زباں اک

مرا ہر اک یقیں جھٹلا رہا ہے
وہ جو مجھ میں مکیں ہے بد گماں اک

ہوئے ہیں بے معانی بال و پر اب
ملا نیچے زمیں کے آسماں اک

برے لوگوں سے ملواتا ہے مجھ کو
جتاتا ہے وہی اچھا یہاں اک

میری چپ سے بھی وہ جھنجھلا رہا ہے
خموشی کی بھی ہوتی ہے زباں اک

خدا کو بھی رکھیں گے دسترس میں
زمیں پر وہ بنا کے آسماں اک

نہ تیرے ہو سکے ہم نا ہی اپنے
رہی آدھی ادھوری داستاں اک