مل جائے کسی شام کسی رات کسی دن
وہ میرے تصور کی ملاقات کسی دن
احباب نے اک شخص تراشا ہے عجب سا
اس کو بھی یہاں لائیں گے ہم ساتھ کسی دن
خوابوں کے بہت پھول مہکتے ہیں لبوں پر
تعبیر کی ہو جائے کوئی بات کسی دن
وہ آنکھ جو صحرا کی طرح ہے یک و تنہا
اس راہ میں رکھ دو کوئی برسات کسی دن
بے خوف ہواؤں کا ابھی زور ہے قائم
موسم کی طرح بدلیں گے حالات کسی دن

غزل
مل جائے کسی شام کسی رات کسی دن
مرغوب علی