مل گئے اپنے یار سے اب کی
حظ اٹھایا بہار سے اب کی
لخت دل برگ دل کی طرز جھڑے
مژہ کی شاخسار سے اب کی
جس طرح آگے پھر گئے تھے کہیں
پھر نہ پھریو قرار سے اب کی
دیکھیں کیا کیا شگوفے پھولیں گے
اس دل داغدار سے اب کی
گر وہ آوے تو اتنا کہیو حسنؔ
مر گیا انتظار سے اب کی

غزل
مل گئے اپنے یار سے اب کی
میر حسن