EN हिंदी
مل گئے اپنے یار سے اب کی | شیح شیری
mil gae apne yar se ab ki

غزل

مل گئے اپنے یار سے اب کی

میر حسن

;

مل گئے اپنے یار سے اب کی
حظ اٹھایا بہار سے اب کی

لخت دل برگ دل کی طرز جھڑے
مژہ کی شاخسار سے اب کی

جس طرح آگے پھر گئے تھے کہیں
پھر نہ پھریو قرار سے اب کی

دیکھیں کیا کیا شگوفے پھولیں گے
اس دل داغدار سے اب کی

گر وہ آوے تو اتنا کہیو حسنؔ
مر گیا انتظار سے اب کی