مل چکا محفل میں اب لطف شکیبائی مجھے
کھینچتی ہے اپنی جانب تیری انگڑائی مجھے
بعد مرنے کے جو حاصل ہوگی رسوائی مجھے
زندگی کیا سوچ کر دنیا میں تو لائی مجھے
عشق میں یوں حسن کی صورت نظر آئی مجھے
وہ تماشہ بن گئے کہہ کر تماشائی مجھے
خود پکار اٹھتا جنوں تکمیل وحشت ہو گئی
وہ سمجھ لیتے جو دل میں اپنا سودائی مجھے
ہو گیا کہرام برپا خانۂ صیاد میں
بیٹھے بیٹھے آشیاں کی یاد جب آئی مجھے
کل تھا میں کعبے میں موجود آج بت خانے میں ہوں
چین دیتا ہی نہیں شوق جبیں سائی مجھے
آئنہ بھی تھا کوئی کیا زندگی کا آئنہ
دیکھنے پر موت کی صورت نظر آئی مجھے
زندگی کی کشمکش سے دست کش ہونا پڑا
نزع میں یاد آ گئی جب ان کی انگڑائی مجھے
کھل گئی چشم بصیرت خاک میں ملنے کے بعد
دل کے ہر ذرے میں اک دنیا نظر آئی مجھے
حضرت بسملؔ یہ اچھی دل کو سوجھی دل لگی
کر دیا شمشیر قاتل کا تمنائی مجھے
غزل
مل چکا محفل میں اب لطف شکیبائی مجھے
بسمل الہ آبادی