میراث بے بہا بھی بچائی نہ جا سکی
اک ذلت وفا تھی اٹھائی نہ جا سکی
وعدوں کی رات ایسی گھنی تھی سیاہ تھی
قندیل اعتبار بجھائی نہ جا سکی
چاہا تھا تم پہ واریں گے لفظوں کی کائنات
یہ دولت سخن بھی کمائی نہ جا سکی
وہ سحر تھا کہ رنگ بھی بے رنگ تھے تمام
تصویر یار ہم سے بنائی نہ جا سکی
ہم مدرسان عشق کے وہ ہونہار طفل
ہم سے کتاب عقل اٹھائی نہ جا سکی
وہ تھرتھری تھی جان سخن تیرے رو بہ رو
تجھ پر کہی غزل بھی سنائی نہ جا سکی
غزل
میراث بے بہا بھی بچائی نہ جا سکی
امیر حمزہ ثاقب