EN हिंदी
میراث بے بہا بھی بچائی نہ جا سکی | شیح شیری
miras-e-be-baha bhi bachai na ja saki

غزل

میراث بے بہا بھی بچائی نہ جا سکی

امیر حمزہ ثاقب

;

میراث بے بہا بھی بچائی نہ جا سکی
اک ذلت وفا تھی اٹھائی نہ جا سکی

وعدوں کی رات ایسی گھنی تھی سیاہ تھی
قندیل اعتبار بجھائی نہ جا سکی

چاہا تھا تم پہ واریں گے لفظوں کی کائنات
یہ دولت سخن بھی کمائی نہ جا سکی

وہ سحر تھا کہ رنگ بھی بے رنگ تھے تمام
تصویر یار ہم سے بنائی نہ جا سکی

ہم مدرسان عشق کے وہ ہونہار طفل
ہم سے کتاب عقل اٹھائی نہ جا سکی

وہ تھرتھری تھی جان سخن تیرے رو بہ رو
تجھ پر کہی غزل بھی سنائی نہ جا سکی