EN हिंदी
میرؔ کا سوز بیاں ہو تو غزل ہوتی ہے | شیح شیری
mir ka soz-e-bayan ho to ghazal hoti hai

غزل

میرؔ کا سوز بیاں ہو تو غزل ہوتی ہے

شیو دیال سحاب

;

میرؔ کا سوز بیاں ہو تو غزل ہوتی ہے
داغؔ کا لطف زباں ہو تو غزل ہوتی ہے

دل تو روئے مگر آنکھوں میں تبسم جھلکے
یہ اگر رنگ فغاں ہو تو غزل ہوتی ہے

دوست کی یاد میں جذبات پہ آتا ہے نکھار
ہجر کی رات جواں ہو تو غزل ہوتی ہے

یک نفس سوز سے ممکن نہیں تکمیل غزل
ہر نفس شعلہ بجاں ہو تو غزل ہوتی ہے

ہاں اچٹتی سی نظر بھی ہے کوئی چیز مگر
یہی نشتر رگ جاں ہو تو غزل ہوتی ہے

صادق العشق ہی یہ نکتہ سمجھتے ہیں سحابؔ
حسن دل کا نگراں ہو تو غزل ہوتی ہے