EN हिंदी
میناروں سے اوپر نکلا دیواروں سے پار ہوا | شیح شیری
minaron se upar nikla diwaron se par hua

غزل

میناروں سے اوپر نکلا دیواروں سے پار ہوا

شاہد میر

;

میناروں سے اوپر نکلا دیواروں سے پار ہوا
حد فلک چھونے کی دھن میں اک ذرہ کوہسار ہوا

چشم بصیرت راہ کی مشعل عزم جواں پتوار ہوا
ساحل ساحل جشن طرب ہے ایک مسافر پار ہوا

دل کے جذبے سامنے آئے خوشبو خواب دھواں بن کر
جتنی دل کش سوچ تھی اس کی ویسا ہی اظہار ہوا

ابھرے احساسات کے سورج یادوں کے مہتاب کھلے
غزلوں کا دیوان سہانے موسم کا اخبار ہوا

جنگل پربت ندیاں جھرنے یاد رہیں گے برسوں تک
اس بستی میں حسن ہے جتنا پابند اشعار ہوا