میز پہ چہرا زلفیں کاغذ پر
دیکھ رہا ہے حیرت سے دفتر
چہرے پر شکوہ کرتی آنکھیں
آنکھوں میں آدھا خالی ساغر
گال پہ تین لکیریں آنسو کی
کانوں میں ہیرے کے دو کنکر
باتوں میں موسیقی جیسی تال
ساڑھے سات اور پندرہ کا چکر
اب تو گھر سے باہر جانے دو
چپک گیا ہے کھڑکی پر منظر
عریانی کی بات نہیں اس میں
پھولوں کو دامن کی کہاں خبر
افسانہ تو نہیں حیات مری
ایک غزل تھی جس کا پیر نہ سر
اس امید میں گھاس پہ لیٹا ہوں
کوئی ستارا دے گا تیری خبر
اپنے پاپ تو دھو ڈالے ہم نے
کیسے دھوئیں پانی کی چادر
خوابوں میں شطرنج کے چو خانے
بنا زور کے پیدل جائے کدھر
جب دیکھا کہ خیر نہیں ملنی
چھوڑ دیا امید نے میرا در
کار دنیا سے کیا پانا ہے
ریت بھری ہے مٹی کے اندر
کاٹا تو دونوں مر جائیں گے
جڑے ہوئے بچے ہیں خیر اور شر
غزل
میز پہ چہرا زلفیں کاغذ پر
شہنواز زیدی