EN हिंदी
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول | شیح شیری
meri turbat par chaDhane DhunDta hai kis ke phul

غزل

میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول

شاہ نصیر

;

میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
تیری آنکھوں کا ہوں کشتہ رکھ دے دو نرگس کے پھول

ایک دن ہو جاؤں گا تیرے گلے کا ہار میں
سونگھنے کو مت لیا کر ہاتھ میں جس تس کے پھول

بستر گل پر جو تو نے کروٹیں لیں رات کو
عطر آگیں ہو گئے اے گل بدن سب پس کے پھول

وصل مہوش کا دلا مژدہ ہمیں دے ہے چراغ
جھڑتے ہیں ہر دم شب ہجراں میں منہ سے اس کے پھول

کچھ خبر بھی ہے تجھے چل فاتحہ کے واسطے
آج ہیں اے شوخ تیرے عاشق مفلس کے پھول

اور ہی کچھ رنگ ہے سینے کے داغوں کا مرے
اس روش کے ہیں کہاں تیرے سپر پر مس کے پھول

تو ہے وہ جو مہر و مہ شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول

کیا نوا سنجی کریں اے ہم صفیران چمن
آ گئی فصل خزاں گلشن سے سارے کھسکے پھول

ہیں مہ و خورشید جو شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول

کس نے سکھلائی ہے تجھ کو یہ روش رفتار کی
مٹ گئے قالیں کے جو تیرے قدم سے گھس کے پھول

پھلجھڑی سے کم نہیں مژگان اشک افشاں تری
موتیا کے دیکھنا جھڑتے ہیں منہ سے اس کے پھول

رنگ خوب و زشت میں کیوں فرق سمجھے ہے نصیرؔ
خار بھی تو ہے اسی کا ہیں بنائے جس کے پھول