میری راتوں میں پھر اک بار ستارے چمکے
میری آنکھوں میں دل آویز نظارے چمکے
پھر فضاؤں میں مچلتا ہوا پاتا ہوں شباب
پھر بجھی آگ میں دو چار شرارے چمکے
پھر لب بام چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں
پھر گناہوں کے ہوس کار اشارے چمکے
جن ستاروں کی چمک نے مجھے تڑپایا تھا
میری تقدیر پہ وہ رشک کے مارے چمکے
پھر صراحی نے ارادوں کو جوانی بخشی
خشک ساغر کے پھر اک بار کنارے چمکے
چاند اتنا نہ چمکتا کبھی دیکھا ساقی
میکدے میں جو سبو رات تمہارے چمکے
جن ستاروں کی چمک ماند پڑی تھی مظہرؔ
وہ ستارے مری آنکھوں کے سہارے چمکے
غزل
میری راتوں میں پھر اک بار ستارے چمکے
سید مظہر گیلانی