میری منزل کہاں ہے کیا معلوم
انتہا غم ہے ابتدا معلوم
تم نہیں میرے اب یہ راز کھلا
میں تمہارا ہوں اب ہوا معلوم
دل کی پروا کرے کوئی کب تک
چاہتا کیا ہے یہ خدا معلوم
دور سے گل کو دیکھنا کیا ہے
یوں تو ہوتا ہے خوش نما معلوم
پاس آئے تو اصل حسن کھلے
دور کی چیز راز نا معلوم
تم کو چاہا بڑا قصور کیا
سہو ظاہر ہے اور خطا معلوم
بات بنتی نظر نہیں آتی
ان کے تیور سے ہو گیا معلوم
وضع داری سے چپ رہوں ورنہ
ہے مجھے راز آپ کا معلوم
کون ہے جس کو خوئے مولا کا
راز سر بستہ ہو سکا معلوم
اس قدر جلد موت آئے گی
ہائے انساں کو یہ نہ تھا معلوم
میں وفا بھی کروں گلے بھی کروں
مجھ کو ہوتا ہے یہ برا معلوم
کیا کہیں کس لئے رہے معتوب
ہم کو اب تک نہیں خطا معلوم
چل کے شعلہؔ سے پوچھئے کیوں کر
جرم ثابت ہوا سزا معلوم
غزل
میری منزل کہاں ہے کیا معلوم
دوارکا داس شعلہ