میری خاطر دیر نہ کرنا اور سفر کرتے جانا
لیکن چھوڑ کے جانے والو ایک نظر کرتے جانا
ہجر کی شب کے تارو تم کو ڈوب تو جانا ہے لیکن
میرے دل پر کیا گزری ہے ان کو خبر کرتے جانا
ہم سے درد کے ماروں کی مختاری کیا مجبوری کیا
جینا اور نہ مرنا لیکن عمر بسر کرتے جانا
اتنا سکوں اتنی خاموشی کیسے رات گزاریں ہم
جاتے جاتے محفل دل کو زیر و زبر کرتے جانا
روتی آنکھیں یا ہنستے لب آپ بھی اک سودائی ہیں
چپ چپ رہنا اور طواف راہ گزر کرتے جانا
اور ذرا چمکا دینا یادوں کے بھڑکتے شعلوں کو
اے غم دوراں اے غم جاناں دل پہ اثر کرتے جانا
کس کو خبر شہزادؔ کہ ان آنکھوں میں کیسا جادو ہے
کہنا اور نہ سننا لیکن دل میں گھر کرتے جانا
غزل
میری خاطر دیر نہ کرنا اور سفر کرتے جانا
شہزاد احمد