میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو
ایک مدت سے میں لاحق ہوں پریشانی کو
اب یہ معمول کے غم مجھ کو رلانے سے رہے
سانحے چاہئیں اشکوں کی فراوانی کو
لوٹ آئے گی جو افلاک سے فریاد مری
کون بخشے گا سند میری ثنا خوانی کو
پیش منظر بھی وہی تھا جو پس ذات رہا
غم کی میراث ملی آنکھ کی حیرانی کو
سینہ صد چاک کرو دل سے نہ اغراض کرو
قید رہنے دو ابھی دشت میں زندانی کو
موت بھی دیکھ کے انگشت بدنداں ہے علیؔ
مرقد زیست سے لپٹی ہوئی ویرانی کو
غزل
میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو
علی مزمل