میری ہستیٔ حال ہنستے ہیں
میرے دن ماہ و سال ہنستے ہیں
پہلے ہر پل جو لوگ ہنستے تھے
وہ بھی اب خال خال ہنستے ہیں
اس کی حاضر جواب باتوں سے
مجھ پہ میرے سوال ہنستے ہیں
دل بھی اس پل بہک سا جاتا ہے
جب ستم گر کے گال ہنستے ہیں
میرے چھپ چھپ کے دیکھنے پہ وہ
اپنے گیسو سنبھال ہنستے ہیں
ان کا رونا بھی خوب رونا ہے
اور ہنسنا کمال ہنستے ہیں
وہ میرے سامنے نہیں ہنستے
ویسے صاحب جمال ہنستے ہیں
میں تو ہرگز کبھی نہیں ہنستا
ہاں مرے خد و خال ہنستے ہیں
میرا دل جب بھی شعر بنتا ہے
اس پہ میرے خیال ہنستے ہیں
ہاں میں پاگل ہوں ہاں میں دیوانہ
آؤ ڈالیں دھمال ہنستے ہیں
مانگنے کے لیے ہیں پھیلے ہوئے
میرے ہاتھوں پہ تھال ہنستے ہیں
یار اغیار سب برابر ہیں
سب ہی دے کر ملال ہنستے ہیں
تو علیؔ کیوں اداس بیٹھا ہے
غم کو دل سے نکال ہنستے ہیں
غزل
میری ہستیٔ حال ہنستے ہیں
علی سرمد