میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے
تو نے کس تہذیب کے پتھر سے لا باندھا مجھے
میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں
اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے
دست و پا بستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحراؤں میں
اے فرات زندگی تو نے یہ کیا بخشا مجھے
چند کرنیں جو مرے کاسے میں ہیں ان کے عوض
شب کے دروازے پہ بھی دینا پڑا پہرا مجھے
ساتھیو تم ساحلوں پر چین سے سوئے رہو
لے ہی جائے گا کہیں بہتا ہوا دریا مجھے
غزل
میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے
نثار ناسک