EN हिंदी
میرے قدموں پر نگوں میرا ہی سر ہے بھی تو کیا | شیح شیری
mere qadmon par nigun mera hi sar hai bhi to kya

غزل

میرے قدموں پر نگوں میرا ہی سر ہے بھی تو کیا

شعیب نظام

;

میرے قدموں پر نگوں میرا ہی سر ہے بھی تو کیا
میرے سائے کی یہ سازش کارگر ہے بھی تو کیا

تیری خوش فہمی کے اس آئینۂ صد رنگ میں
عکس چہرے سے سوا جاذب نظر ہے بھی تو کیا

اپنے مرکز سے جدا ہو کر اگر یہ فکر نو
دائرہ در دائرہ گرم سفر ہے بھی تو کیا

زہر کی کہنہ روایت ہی کا ڈر ڈس جائے گا
جسم سے لپٹی یہ ناگن بے ضرر ہے بھی تو کیا

مہرباں قطروں کی بارش ابر آئندہ میں ہے
فصل امکاں اب کے موسم بے ثمر ہے بھی تو کیا

سیر لا سمتی سے بھی لا حاصلی کا لطف لے
ریگ صحرا بے صدا و بے ثمر ہے بھی تو کیا