میرے قدموں پر نگوں میرا ہی سر ہے بھی تو کیا
میرے سائے کی یہ سازش کارگر ہے بھی تو کیا
تیری خوش فہمی کے اس آئینۂ صد رنگ میں
عکس چہرے سے سوا جاذب نظر ہے بھی تو کیا
اپنے مرکز سے جدا ہو کر اگر یہ فکر نو
دائرہ در دائرہ گرم سفر ہے بھی تو کیا
زہر کی کہنہ روایت ہی کا ڈر ڈس جائے گا
جسم سے لپٹی یہ ناگن بے ضرر ہے بھی تو کیا
مہرباں قطروں کی بارش ابر آئندہ میں ہے
فصل امکاں اب کے موسم بے ثمر ہے بھی تو کیا
سیر لا سمتی سے بھی لا حاصلی کا لطف لے
ریگ صحرا بے صدا و بے ثمر ہے بھی تو کیا

غزل
میرے قدموں پر نگوں میرا ہی سر ہے بھی تو کیا
شعیب نظام