میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے
گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے
دم ساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں
ڈھونڈا بھی بہت ہم نے پکارا بھی بہت ہے
اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں
کچھ تلخئ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے
انجام وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے
سنتے ہیں خیال ان کو ہمارا بھی بہت ہے
کچھ راس بھی آتی نہیں افسرؔ کو مسرت
کچھ یہ کہ وہ حالات کا مارا بھی بہت ہے
غزل
میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے
افسر ماہ پوری