میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
سورج کی روشنی نے بڑا کام کر دیا
ہاتھوں پہ میرے اپنے لہو کا نشان تھا
لوگوں نے اس کے قتل کا الزام دھر دیا
گندم کا بیج پانی کی چھاگل اور اک چراغ
جب میں چلا تو اس نے یہ زاد سفر دیا
جاگا تو ماہتاب کی کنجی سرہانے تھی
میں خواب میں تھا جب مجھے روشن نگر دیا
اس کو تو اس کے شہر نے کچھ بھی دیا نہیں
اور اس نے پھر بھی شہر کو تحفے میں سر دیا
میرا بدن تو رد عمل میں خموش تھا
میری زباں نے ذائقہ خشک و تر دیا
وہ حرف آشنا ہے مجھے یہ گماں نہ تھا
اس نے تو سب کو نقش بہ دیوار کر دیا
یوں بھی تو اس نے حوصلہ افزائی کی مری
حرف سخن کے ساتھ ہی زخم ہنر دیا
اختر یہی نہیں کہ مجھے بال و پر ملے
اس نے تو عمر بھر مجھے احساس پر دیا
غزل
میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
اختر ہوشیارپوری