میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے
پھر بھی یہ دل مرا راضی بہ مدد ہے حد ہے
غم تو ہیں بخت کے بازار میں موجود بہت
کاسۂ جسم میں دل ایک عدد ہے حد ہے
آج کے دور کا انسان عجب ہے یا رب
لب پہ تعریف ہے سینے میں حسد ہے حد ہے
تھا مری پشت پہ سورج تو یہ احساس ہوا
مجھ سے اونچا تو مرے سائے کا قد ہے حد ہے
مستند معتمد دل نہیں اب کوئی یہاں
محرم راز بھی محروم سند ہے حد ہے
میں تو تصویر جنوں بن گیا ہوتا لیکن
مجھ کو روکے ہوئے بس پاس خرد ہے حد ہے
روز اول ہی میں ہر حد سے گزر بیٹھا اور
چیختا رہ گیا ہمدم مرا حد ہے حد ہے
کب تلک خاک بسر بھٹکے بھلا باد صبا
اب تو ہر شاخ پہ پھولوں کی لحد ہے حد ہے
رنگ اخلاص بھروں کیسے مراسم میں ندیمؔ
اس کی نیت بھی مری طرح سے بد ہے حد ہے
غزل
میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے
ندیم سرسوی