EN हिंदी
میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کی لرزش تو نہیں | شیح شیری
mere honTon pe tere nam ki larzish to nahin

غزل

میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کی لرزش تو نہیں

فاضل جمیلی

;

میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کی لرزش تو نہیں
یہ جو آنکھوں میں چمک ہے کوئی خواہش تو نہیں

رنگ ملبوس ہوئے لمس ہوئی ہے خوش بو
آج پھر شہر میں پھولوں کی نمائش تو نہیں

ایک ہی سانس میں دہرائے چلے جاتے ہیں
یہ محبت کہیں الفاظ کی ورزش تو نہیں

دیکھتا رہتا ہوں چپ چاپ گزرتے بادل
یہ تعلق بھی کوئی دھوپ کی بارش تو نہیں

تم کبھی ایک نظر میری طرف بھی دیکھو
اک توقع ہی تو ہے کوئی گزارش تو نہیں

مل بھی جائیں کہیں آنکھیں تو مرمت نہ کریں
ہم میں ایسی کوئی تلخی کوئی رنجش تو نہیں