میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کی لرزش تو نہیں
یہ جو آنکھوں میں چمک ہے کوئی خواہش تو نہیں
رنگ ملبوس ہوئے لمس ہوئی ہے خوش بو
آج پھر شہر میں پھولوں کی نمائش تو نہیں
ایک ہی سانس میں دہرائے چلے جاتے ہیں
یہ محبت کہیں الفاظ کی ورزش تو نہیں
دیکھتا رہتا ہوں چپ چاپ گزرتے بادل
یہ تعلق بھی کوئی دھوپ کی بارش تو نہیں
تم کبھی ایک نظر میری طرف بھی دیکھو
اک توقع ہی تو ہے کوئی گزارش تو نہیں
مل بھی جائیں کہیں آنکھیں تو مرمت نہ کریں
ہم میں ایسی کوئی تلخی کوئی رنجش تو نہیں
غزل
میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کی لرزش تو نہیں
فاضل جمیلی