میرے حصے میں ازل سے کوئی گھر تھا ہی نہیں
مجھ سے پہلے کوئی آشفتہ سفر تھا ہی نہیں
میں تری یاد کے سائے میں بسر کرتا رہا
اس خرابے میں کوئی اور شجر تھا ہی نہیں
کوئی دم کوئی گھڑی رو دیا کرتے تھے میاں
تیری فرقت میں قرینے کا ہنر تھا ہی نہیں
ایک دروازہ جہاں نور بچھا رہتا تھا
ایک آنگن کہ جہاں کوئی بشر تھا ہی نہیں
ایک تصویر تصور کی فراوانی تھی
اک تخیل کہ زمانہ سے ادھر تھا ہی نہیں
اس قدر درد کہ بھرتا ہی نہ تھا آہ یہ دل
اس قدر خوف کہ پھر کوئی بھی ڈر تھا ہی نہیں

غزل
میرے حصے میں ازل سے کوئی گھر تھا ہی نہیں
راحل بخاری