EN हिंदी
میرے حریف ہی کو سہی چاہتا تو ہے | شیح شیری
mere harif hi ko sahi chahta to hai

غزل

میرے حریف ہی کو سہی چاہتا تو ہے

مظہر امام

;

میرے حریف ہی کو سہی چاہتا تو ہے
اب اس کی زندگی میں کوئی تیسرا تو ہے

مانا گزارتا ہے وہ مصروف زندگی
لیکن کبھی کبھی ہی مجھے سوچتا تو ہے

چھلکی ہوئی ہیں ساعت جاں کی گلابیاں
محفل میں آنسوؤں کی ابھی رت جگا تو ہے

اس کو اداس دیکھ کے کتنی خوشی ہوئی
میری تمام عمر کا غم آشنا تو ہے

نوک مژہ پہ اس کی ستارہ کبھی کبھی
میرے دھڑکتے دل کی طرح کانپتا تو ہے

سچ ہے کہ تتلیوں سے اسے ہے مناسبت
کم کم ہی برگ دل پہ مگر بیٹھتا تو ہے

انگڑائیوں سے پھول کی آتی تو ہے صدا
خوشبو کا شوخ و شنگ بدن ٹوٹتا تو ہے