میرے حریف ہی کو سہی چاہتا تو ہے
اب اس کی زندگی میں کوئی تیسرا تو ہے
مانا گزارتا ہے وہ مصروف زندگی
لیکن کبھی کبھی ہی مجھے سوچتا تو ہے
چھلکی ہوئی ہیں ساعت جاں کی گلابیاں
محفل میں آنسوؤں کی ابھی رت جگا تو ہے
اس کو اداس دیکھ کے کتنی خوشی ہوئی
میری تمام عمر کا غم آشنا تو ہے
نوک مژہ پہ اس کی ستارہ کبھی کبھی
میرے دھڑکتے دل کی طرح کانپتا تو ہے
سچ ہے کہ تتلیوں سے اسے ہے مناسبت
کم کم ہی برگ دل پہ مگر بیٹھتا تو ہے
انگڑائیوں سے پھول کی آتی تو ہے صدا
خوشبو کا شوخ و شنگ بدن ٹوٹتا تو ہے
غزل
میرے حریف ہی کو سہی چاہتا تو ہے
مظہر امام