میرے گریہ سے نہ آزار اٹھانے سے ہوا
فاصلہ طے نئی دیوار اٹھانے سے ہوا
ورنہ یہ قصہ بھلا ختم کہاں ہونا تھا
داستاں سے مرا کردار اٹھانے سے ہوا
محمل ناز کی تاخیر کا یہ سارا فساد
راہ افتادہ کو بیکار اٹھانے سے ہوا
شاق گزرا ہے جو احباب کو وہ صدمہ بھی
بزم میں مصرع تہہ دار اٹھانے سے ہوا
یوں تو مصحف بھی اٹھائے گئے قسمیں بھی مگر
آخری فیصلہ تلوار اٹھانے سے ہوا
غم نہیں تخت کو اور بخت کو کھو دینے کا
کب مرا ہونا بھی دستار اٹھانے سے ہوا
جاگنا تھا مرا ہنگامۂ ہستی کا سبب
حشر برپا بھی دگربار اٹھانے سے ہوا
گوشۂ باغ ہوا خلد گزرنے سے ترے
آئینہ عکس رخ یار اٹھانے سے ہوا
غزل
میرے گریہ سے نہ آزار اٹھانے سے ہوا
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ