میرے گھر سے اس کی یادوں کے مکیں جاتے نہیں
چھوڑ کر جیسے شجر اپنی زمیں جاتے نہیں
تیرے در سے ہی ملے گا جو بھی ملتا ہے ہمیں
ہم ترے در کے علاوہ اب کہیں جاتے نہیں
تجھ کو دیکھے اک زمانہ ہو گیا پر کیا کہیں
آج بھی دل سے ترے نقش حسیں جاتے نہیں
غم دیے ہیں زندگی نے غم سے مایوسی نہیں
چھوڑ کر اب زندگی کو ہم کہیں جاتے نہیں
اڑتے پھرتے ہیں خلاؤں میں سحابوں کی طرح
یہ وہ نالے ہیں کہ جو زیر زمیں جاتے نہیں
غزل
میرے گھر سے اس کی یادوں کے مکیں جاتے نہیں
عبدالمنان صمدی