EN हिंदी
میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے | شیح شیری
mere dukh ki dawa bhi rakhta hai

غزل

میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے

وشال کھلر

;

میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے
خود کو مجھ سے جدا بھی رکھتا ہے

مانگتا بھی نہیں کسی سے کچھ
لب پہ لیکن دعا بھی رکھتا ہے

ہاں چلاتا ہے آندھیاں لیکن
موسموں کو ہرا بھی رکھتا ہے

جب بھی لاتا ہے غم پرانے وہ
ان میں حصہ نیا بھی رکھتا ہے