میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے
خود کو مجھ سے جدا بھی رکھتا ہے
مانگتا بھی نہیں کسی سے کچھ
لب پہ لیکن دعا بھی رکھتا ہے
ہاں چلاتا ہے آندھیاں لیکن
موسموں کو ہرا بھی رکھتا ہے
جب بھی لاتا ہے غم پرانے وہ
ان میں حصہ نیا بھی رکھتا ہے
غزل
میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے
وشال کھلر