میرے اندر وہ میرے سوا کون تھا
میں تو تھا ہی مگر دوسرا کون تھا
لوگ بھی کچھ تعارف کراتے رہے
مجھ کو پہلے ہی معلوم تھا کون تھا
لوگ اندازے ہی سب لگاتے رہے
وہ جبیں کس کی تھی نقش پا کون تھا
مجھ سے مل کر ہی اندازہ ہوگا کوئی
وہ الگ کون تھا وہ جدا کون تھا
کوئی جس پر نہ تھا موسموں کا اثر
بعد ساون کے بھی وہ ہرا کون تھا
جس کو احوال سارا تھا معلوم وہ
بے خبر راستے میں پڑا کون تھا
منتظر جس کی دنیا رہی دیر تک
دور سے کوئی آتا ہوا کون تھا
آئی جس کی مہک اس سے پہلے کہیں
وہ سوار کمند ہوا کون تھا
ریزہ ریزہ ہی پہچان میں تھا ظفرؔ
جانتے تھے سبھی جا بجا کون تھا
غزل
میرے اندر وہ میرے سوا کون تھا
ظفر اقبال