EN हिंदी
میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا | شیح شیری
mere andar ka ghurur andar guzarta rah gaya

غزل

میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا

ظفر امام

;

میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا
سر سے پانو تک اترنا تھا اترتا رہ گیا

بارشوں نے پھر وہی زحمت اٹھائی دیر سے
ایک ریگستان ہے کہ پھر بھی پیاسا رہ گیا

زندگی بھر آنکھ سے آنسو ندامت کے گرے
اور میرے دل کا صفا یوں ہی سادہ رہ گیا

پہلی بارش ہی میں تقویٰ کے نشاں سب دھل گئے
سر میں اک ٹوٹا ہوا مظلوم سجدا رہ گیا

کیسے ہوگا اب خدائی بندگی کا فیصلہ
شہر کے سارے خدا میں ایک بندہ رہ گیا

جلد منزل تک پہنچنے کا جنوں اس کو رہا
زندگی بھر اس لیے رستہ بدلتا رہ گیا