میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
عشق کی زندہ دلی حسن کی رعنائی ہے
شاخ گل میں جو نزاکت جو لہک آئی ہے
تیری بانہوں کی لچک ہے تری انگڑائی ہے
پھر ابھرنے لگے نا خواستہ ماضی کے نقوش
لوح دل پر کوئی تصویر ابھر آئی ہے
غم و اندوہ کے اس دور میں کیا عیش و نشاط
شادیانے ہیں خوشی کے نہ وہ شہنائی ہے
زندگی ہے کہ بلاتی ہے تقاضوں کی طرف
دل گرفتار خم زلف چلیپائی ہے
رہئے خاموش تو حالات بگڑ جاتے ہیں
اور کچھ کہئے تو اندیشۂ رسوائی ہے
دل وہ کیا ہے کہ نہ ہو جس میں محبت کا جنوں
سر وہ کیا کہئے جو بے ذوق جبیں سائی ہے
میں کہ درپیش ہے مجھ کو سفر دور و درواز
اور اک وہ ہیں کہ ان کو غم تنہائی ہے
کوئی مرہم نہ مداوا کوئی پھاہا نہ دوا
زیست اوڑھے ہوئے زخموں کی ردا آئی ہے
ظرف و ہمت سے سوا دی نہیں جاتی تکلیف
اتنا غم دیتے ہیں جتنی کہ شکیبائی ہے
تاجؔ یہ زور بیاں لطف زباں جو کچھ ہے
اثر تربیت شیون بینائی ہے
غزل
میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
ریاست علی تاج