EN हिंदी
میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے | شیح شیری
mere afkar ne jis shai se jila pai hai

غزل

میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے

ریاست علی تاج

;

میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
عشق کی زندہ دلی حسن کی رعنائی ہے

شاخ گل میں جو نزاکت جو لہک آئی ہے
تیری باہوں کی لچک ہے تیری انگڑائی ہے

پھر ابھرنے لگے نہ خستہ ماضی کے نقوش
لوح دل پر کوئی تصویر ابھر آئی ہے

غم و اندوہ کے اس دور میں کیا عیش و نشاط
شادیانے ہیں خوشی کے نہ وہ شہنائی ہے

زندگی ہے کہ بلاتی ہے تقاضوں کی طرف
دل گرفتار خم زلف چلیپائی ہے

رہیے خاموش تو حالات بگڑ جاتے ہیں
اور کچھ کہیے تو اندیشۂ رسوائی ہے

دل وہ کیا ہے کہ نہ ہو جس میں محبت کا جنون
سر وہ کیا ہے کہ جو بے وضع جبیں سائی ہے

میں کہ درپیش ہے مجھ کو سفر دور و درواز
اور اک وہ ہیں کہ ان کو غم تنہائی ہے

کوئی مرہم نہ مداوا کوئی پھاہا نہ دوا
زیست اوڑھے ہوئے زخموں کی ردا آئی ہے

ظرف و ہمت سے سوا دی نہیں جاتی تکلیف
اتنا غم دیتے ہیں جتنی کہ شکیبائی ہے

تاجؔ یہ زور بیاں جو بھی سخن میں کچھ ہے
اثر تربیت شیون بینائی ہے