میرا شمار کر لے عدد کے بغیر بھی
میں جی رہا ہوں تیری مدد کے بغیر بھی
آتے ہیں روز میری زیارت کو حادثے
میں دفن ہو چکا ہوں لحد کے بغیر بھی
ہر چند شعر و شوق کی بنیاد ہے جنوں
چلتا نہیں ہے کام خرد کے بغیر بھی
آنکھوں کو تیری دید میسر نہیں مگر
دل جنگ کر رہا ہے رسد کے بغیر بھی
اک منفرد مقام کی حامل ہے تیری ذات
تو دل میں ہے قبول یا رد کے بغیر بھی
سردار ایاغؔ وقت سفر جب اذاں ہوئی
رکنا پڑا مجھے کسی حد کے بغیر بھی
غزل
میرا شمار کر لے عدد کے بغیر بھی
سردار ایاغ