میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے
گہرے زرد زمین کی رنگت دھانی کرتا ہے
بجھتے ہوئے دیئے کی لو اور بھیگی آنکھ کے بیچ
کوئی تو ہے جو خوابوں کی نگرانی کرتا ہے
مالک سے اور مٹی سے اور ماں سے باغی شخص
درد کے ہر میثاق سے رو گردانی کرتا ہے
یادوں سے اور خوابوں سے اور امیدوں سے ربط
ہو جائے تو جینے میں آسانی کرتا ہے
کیا جانے کب کس ساعت میں طبع رواں ہو جائے
یہ دریا بے موسم بھی طغیانی کرتا ہے
دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے
آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے
غزل
میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے
افتخار عارف